اخبار والا

(میری کہانی میری زبانی)
میں اپنے آخری پرچے کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک ابّا نے کھانے کے لئے آواز دی. کل میرا انٹر کا آخری پرچہ تھا اور میری تھوڑی سی تیاری ابھی باقی تھی . اگر میں آج انٹر کہ پرچے دے رہا تھا تو وہ صرف اور صرف ابّا کی دعایں اور میری استانی جی کی محنت کا نتیجہ تھا ورنہ میں آج بھی دو سال پہلے کی طرح اخبار والے ک نام سے جانا جاتا.

پیدائش کے کچھ سال بعد ہی میں نے اپنی ماں کو ایک ایکسیڈنٹ میں کھو دیا تھا. میں جب ایک سال کا تھا تو ابّا کو فالج کا اٹیک ہوا تھا اور میں بلکل بےبس ہوگیا تھا. دو سال پہلے تک میری زندگی بہت مختلف تھی اور آج میں ایک اسکول میں سیکرٹری تھا اور ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھ رہا تھا

میں صرف تین سال کا تھا جب اما کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا. کچھ عرصے تک چچی کے ساتھ رہا اور پھر ابّا کو لے کر واپس اپنے گھر چلا گیا. چچا کے حالت اتنے کچھ خاص نہیں تھے. اور بڑھتی ہی مہنگی کے ساتھ مجھے اور ابّا کو سمبھالنا انکے بس میں نہیں تھا لہٰذا میں ابّا کو لے کر واپس آگیا.
میں روز سبھا اخبار ڈالتا اور پھر مدرسہ چلا جاتا. مدرسہ سے واپس آکر ایک اسکول کی کینٹین میں کام کرتا تھا. اس اسکول کی ایک استانی مجھے چھوتی کے بعد پڑھاتی تھی. میں نے ٣ سال میں ٥ جماعتیں پاس کی. میں جب چھٹی جماعت میں تھا تو اس استانی کا کسی اور اسکول میں تبادلہ ہوگیا. انکے جانے کے بعد میری پڑھائی بلکل چھوٹ گئی

ابھی اس بات کو کوئی ٢ مہینے ہی ہوئے تھے کے ابّا کی طبیعت مزید خراب ہوگئی. وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھے. میں انکو کھو نہیں سکتا تھا میرے سارے پیسے ابّا کے علاج میں خرچ ہو رہے تھے. اس وقت مجھے پڑھائی کا کوئی ہوش نہیں تھا. میں اپنا پورا وقت ابّا کے ساتھ گزارتا تھا. مجھے ڈر تھا انکو کھونے کا اور اگر میں انکو کھو دیتا تو میری زندگی ختم ہوجاتی. میں جیتے جی مر جاتا. انکی حالت مجھے اندر ہی اندر کاٹتی کا رہی تھی. اگر انکو کچھ ہوجاتا تو میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کر پاتا. میں نے پوری زندگی ابّا کی خدمت کی تھی اور آج جب انکو میری ضرورت تھی تو میں کیسے انکا ساتھ چھوڑ دیتا.

پانچ جماعتیں پڑھ کر بھی تو صرف اخبار ہی تو ڈالتا تھا کونسا تعلیم نے میری زندگی بدل دی تھی. ابّا کی طبیت دن بدن بغرتی چلی جا رہی تھی. میں سارا وقت ابّا کے سرہانے بیٹھ کر دعا کرتا رہتا کہ کوئی معجزہ ہو اور ابّا ٹھیک ہو جایں اور ہم اس تکلیف سے نکل این کیونک ابّا کی تکلیف مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تھی. میرا کہیں بھاگنے کو دل کرتا تھا. میں زندگی سے بلکل بیزار ہوگیا تھا. ایسے میں مجھے میری استانی جی ملنے آئین. جب گھر پہنچی تو انکو ہمارے پڑوسیوں سے پتا چلا کے ہم ہسپتال میں ہیں تو وہ مجھ سے وہاں ملنے آگئی. انہوں نے مجھے بہت سمجھایا اور ابّا کے علاج کے لئے کچھ پیسے بھی دیے. بس وہ دن اور آج کا دن میری سوچ میں اگر کوئی مثبت تبدیلی آئ تو صرف اور صرف انکی وجہ سے

مجھے ابھی بھی ابّا کا مسکراتا ہوا چہرہ یاد ہے. ١٤ سال میں پہلی بار مسکراۓ تھے اور میرے لئے یہ بہت بری بات تھی کیوں کے وہ میری مارکس شیٹ دیکھ  مسکرا رہے تھے. ابّا ١٤ سالوں سے بلکل بےبس تھے انکا ہر کام میں خود کرتا تھا. اور یہ میرے لئے کسی خوشخبری سے کم نہیں تھا جب وہ میری مارکس شیٹ کو دیکھ کہ مسکرا رہے تھے

آج بھی میں ان لمحات کو یاد کرتا ہوں جب میں مدرسے کے لئے نکلتا تھا اور سامنے سے اسکول کی بس گزر رہی ہوتی. اسمے ڈھیر سارے مسکراتے چہرے دیکھنے کو ملتے اور میں کھڑا بس کو تکتا رہتا اور اپنی قسمت پر آنسو بہاتا. میں ان بچوں میں شامل نہیں ہو سکتا تھا اور یہ بس ہر روز میرے زخموں پر نمک چھڑکنے کا سبب بنتی. اور اگر ان استانی کی مہربانی نہ ہوتی تو آج میں میٹرک بھی نہ کر پتا

میٹرک کے بعد میں اخبار کے دفتر گیا کہ مجھے ٹائپنگ کی نوکری مل جاۓ گی وہاں پر مگر مجھے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا.  میں بلکل بے دل ہو کر جب گھر پہنچا تو گھر کا نقشہ ہی بدلہ ہوا تھا. ابّا اپنی چارپائی کوئی پکڑے آدھے کھڑے ہوئے وے تھے. ایک دم سے گر گئی. وہ پھر کھڑے ہوئے پھر گر پڑے. میں جب جب انکی مدد کے لئے آگے بڑھتا وو مجھے روکنے اور نہ آنے کا اشارہ کرتے اور منع کر دیتے. کوئی ساتھوے آتھوے دفع پہ وہ کھڑے ہوئے اور میں سب کچھ بھول بھال کے انکے گلے لگ گیا.

میں بلکل بےبس ہو کر ہاتھ میں مایوسی تھامے گھر پہنچا تھا نہ نامعلوم اس بات سے کے اصل خوشی تو گھر میں میری آمد کا انتظار کر رہی ہے. ابّا کو کھڑا دیکھ کر میں سری پریشانیاں بھول گیا تھا. انکے گلے لگ کر مجھے ایک عجیب سی راحت کا احساس ہوا جو لفظوں میں بین کرنا مشکل ہے. آخر ماں باپ ہوتی ہی ایسی ہستیاں ہیں. میں انکو کھونا نہیں چاہتا تھا. زندگی میں پہلی دفع میں باپ سے گلے لگا تھا ایسی کیسے چھوڑ دیتا. وہ بھی بلکل عجیب حالت میں تھے. انکی آنکھوں میں ایک چمک سی تھی جو میں دیکھنے کے لئے ترس گیا تھا پر ساتھ ساتھ انکی آنکھ نم ہی جا رہی تھی اور انکی آنکھو کی اس نمی کو میں اپنے اپر محسوس کر سکتا تھا

وہ دن آج بھی آنکھوں میں آنسو لے آتا ہے. اس واقع کے پورے ایک ہفتے بعد ہمارے محلے میں ایک نیا اسکول کھلا. وو اسکول غریب بچوں کے لئے تھا جہاں پی تعلیم مفت فراہم کی جاتی تھی. وہاں کی پرنسپل میری وہی استانی جی تھی جنہوں میں میری زندگی بدلی تھی. مجھے امید کی کرن دکھائی دی. وہ میرے لئے ایک فرشتہ ہیں. انہوں نے مجھ جیسے کئی اور بچوں کے لئے یہ کھول کھولا تھا .انھوں نے مجھے اس اسکول میں بطور سیکرٹری رکھ لیا اور آج میں انٹر کے آخری پرچے کی تیاری کر رہا ہوں.

میں نے زندگی سے صرف ایک بات سیکھی اور وہ یہ کہ
 "خواب وہی اچھے ہوتے ہیں جو انسان آنکھیں کھول کر دیکھتا ہے".
تحریر: عائشہ ہمزہ 


Bookmark and Share

8 comments:

  1. Its is appreciative. It is inspiring story. Never to lose hope.

    ReplyDelete
    Replies
    1. Thankue Mr/Miss Anonymous :) Much appreciated.

      Delete
  2. Dear Aisha
    it is one of the best stories i have ever read which is totally based on reality
    Also bring hope that yes Allah just want our best from Us n Allah always Reward us from the best
    so Never Lose hope

    Regards
    Abdul Samad

    ReplyDelete
    Replies
    1. Thankue for your kind words sir.
      Much appreciated :)

      Delete
  3. beautiful,inspiring and true motivation,well done writer

    ReplyDelete
    Replies
    1. Thankue Mr/Miss Anonymous.Much appreciated :)

      Delete
  4. Again very touching story and it touches your soul, Masha Allah keep it up

    ReplyDelete

It's all about friendly conversation here at Small Review. We would love to hear your thoughts.
Be sure to check back again, because we do make every effort to reply to your feedback here.