پورے آٹھ سال بعد میں واپس پاکستان آیا تھا. اپنے ملک
کے حالت دیکھ کر مجھے بہت صدمہ پہنچا. ہر ام انسان کی طرح میں نے حکمرانوں کو
کوسنا شرو کر دیا. میں اسی بات پر اپنے خالہ زاد بھی سے بات کر رہا تھا جب اسکے
بیٹے نے اکر زد کرنی شروع کردی کے اسے پاکستان کا جھنڈا لینا ہے. آج یکم اگست تھی.
ابھی پورے ١٤ دن باقی تھے پر بچے تو پھر بچے ہوتے ہیں. جب میرے کزن نے اسکو مانا
کرنے کی کوشش کی تو وہ رو پڑا اور کہنے لگا:
"نہیں! مجھے پاکستان کا جھنڈا ابھی
چاہیے ہے ورنہ افضل کہیگا کے تمہارے پاس تو پاکستان کا جھنڈا بھی نہیں پھر پاکستان
تمہارا کیسے ہوا؟"
بچوں کی باتیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں. کتنے سچے اور معصوم ہوتے ہیں. آدم کے اس ایک جملے نے میری
آنکھیں کھول دی تھی. پاکستان پر اگر حکمران حکومت کر رہے تھے تو بیشک انکا کام تھا
لیکن ہم جو کے اسکے شہری تھے ہم کیا کر رہے تھے پاکستان کے لئے؟
میں کیا کر رہا تھا؟ اپنے مطلب کی ڈگری لی اور باہر نوکری
کی تلاش میں چلا گیا. میں نے بھی تو اپنے ملک کے لئے کچھ نہیں کیا تھا. حکمران تو پھر
اپنے ملک میں بیٹھے ہوئے تھے مجھ سے تو اتنا بھی گنوارہ نہ ہو سکا.
آج جب میں اپنے دادا کے انتقال سے واپس آیا تو آدم کی بات
سے مجھے احساس ہوا کے مہینے آج تک اس ملک کے لئے کچھ بھی نہیں کیا تھا. میں بھی تو
ادھر سے ہی تعلیم حاصل کی تھی. میں بھی تو اسی ملک سے ایک قابل انسان بنا تھا.
اس ملک سے وابستہ وہ ساری یادیں یک دم ایک لمحے میں آنکھوں
کے سامنے سے گزر گئیں. وو رات کو دیر تک کرکٹ کھیلنا، شام کو بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر
چارپائی پر بیٹھ کر چاۓ
پینا، گلیوں میں گلی ڈنڈا کھیلنا اور بہت کچھ ... اتنا وقت بیت چکا تھا اور مجھے ذرا
سا بھی احساس نہیں ہوا تھا. آج اپنے ملک کے حالت دیکھ کر میں واقعی بہت شرمندہ ہو رہا
تھا. اس ملک کی وجہ سے میں اتنا قابل بنا کے اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکوں اور جب اسے
میری ضرورت تھی تو می پیسے کی لالچ میں بھر چلا گیا.
یہ تھی میری زندگی؟ مقصد حیات تو یہ کبھی نہیں تھا.
دادا جی کی باتیں مجھے آج بھی یاد ہیں. وہ کہتے تھے:
"بیٹا! اپنے گھر کی قدر کرو تم خالی ہاتھ
بھی آؤگے تو بھی تمھیں باہر نہیں پھینکے گیں."
میں نے فیصلہ کر لیا کے میں اب اپنے گھر پاکستان میں ہو
رہونگا. اپنے بیوی بچوں کو میں نے یہیں پر بلوا لیا اور گاؤں میں ہی ایک چھوٹے سے ہسپتال
کی تعمیر شروع کروا دی. ڈاکٹر بننا میرا بچپن سے خواب تھا. اب میں روز صبح سے شام ہسپتال میں بیٹھتا ہوں اور شام سے رات گاؤں
کے گریب بچوں کو کچھ اور لوگوں کے ساتھ مل کر پڑھاتا ہوں.
روز رات کو میں سکون سے سوتا یہ بات جان کر کے میں اپنے
ملک کے لئے کچھ کر رہا ہوں. جو ملک ٦٦ سال پہلے آزاد ہوا تھا. جسکو پانے کے لئے پتا
نہیں کتنی جانیں قربان ہوئی، کتنی مائیں بےولاد ہوئی! آج میں سکوں میں ہوں کیونکہ مجھے
پتا ہے اس ملک کی کیا قیمت ہے اور میری پوری کوشش ہے کے میں وو قیمت چکا سکوں آج میں
اس ملک کی اگلی نسل کے ایک چھوٹے سے حصّے کو پڑھا رہا ہو اور انھ پاکستان کی اہمیت
کرنا سکھا رہا ہوں ٹکے جن یہ بڑے ہوں تو یہ بھی آگے یہ پیغم پھنچایں.
میں نے تو فیصلہ کر لیا ہے، اب آپ کب کر رہیں ہیں؟
~ عائشہ حمزہ
No comments:
Post a Comment
It's all about friendly conversation here at Small Review. We would love to hear your thoughts.
Be sure to check back again, because we do make every effort to reply to your feedback here.