تنگ گلی


اور زندگی نے ایک بار پھر مجھے دھوکہ دے دیا. میں بےبس، لاچار، تنہا، ایک بڑی سی چادر سے اپنے آپ کو ڈھانپ کر اس تانگ گلی کے نکر پر کھڑی تھی. اس گلی میں جو کبھی میرے لئے پوری دنیا تھی. اک گلی میں جہاں مینے اپنی آنکھیں کھولی تھی. اس گلی مئی میں جہاں میں نے چلنا سیکھا تھا اور آج ووہی مجھے وہاں سے چلنے کو کہ رہی تھی.

میرے پاس اس وقت ہاتھ میں صرف میرے کالج کا بیگ تھا اور بٹوے میں ١٠٠ روپے تھے. کالج کے بیگ میں ایک پانی کی بوتل بھی تھی جسمے صرف ایک گھونٹ کے برابر پانی تھا. میں زندہ تھی اور ذہنی طور پر بھی سہی سلامت تھی. اور یہ میرے لئے حیرت کی بات تھی کیونک جو دن مجھے دیکھنا پڑے اسکے بعد تو میں یقینی طور پر واگل ہوجاتی.

یہ سب پچھلے سال ٢١ ستمبر کو شروع ہوا جب ہمارے گھر میں ماسی یی جسکا نام نسرین تھا. وہ شکل سے کافی معصوم تھی پر اسکے اندر کیا چلتا رہا می آج تک جان نہیں پائی.

میرے والد فیکٹری میں ایک مینیجر کی حثیت سے کام کرتے تھے اور میری والدہ ایک اسکول میں پڑھاتی تھی. میرا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا جو صرف پانچ سال کا تھا جب یہ حادثہ پیش آیا. ہم لوگ لیاری میں رہتے تھے. ہماری گلی بہت ااندر جا کر تھی. ہماری گلی میں صرف تین گھر تھے جسمے ایک ہمارا، ایک گھر خالی ہوتا تھا جبکے ایک ہمارے پڑوسیو کا تھا جو حج پر گئے تھے. باقی سری زمینیں تھیں جنمے سے ایک پر کام ہورہا تھا. میرے سارے رشتےدار پشاور مے رہتے تھے اسلئے ہم لوگو کا کہیں آنا جانا بھی نہیں ہوتا تھا.

نسرین کے زمے صرف کپڑے، برتن، اور کمروں کی صفائی تھی وو روز تین بجے آتی اور سات بجے چلی جاتی. اسے سوال پوچھنے کی بہت بری بیماری تھی. وہ ٢٤ گھنٹے سوال جواب کرتی رہتی تھی اور ہر کسی سے بلا وجہ فری ہوجاتی تھی. وہ مجھسے بھی فری ہونے کی کوشش کرتی رہتی تھی کے آؤ تماری چوٹیا بینڈ دوں، آؤ تمارا  کام کر دوں وغیرہ وغیرہ پر میں اسے کھڑے کھڑے سنا دیتی.  وہ امی کو میری شکایت کر دیتی تھی.

ہمارے گھر ک سامنے والی زمین پر گھر بن رہا تھا اور مزدوروں کا پورے سال کا کام تھا. یہ بات بھی ہمای نسرین سے ہی پتا چلی تھی. ہفتے میں ایک دن مزدوروں کا کھانا ہمارے گھر سے جاتا تھا. اور  نسرین دینے جاتی تھی. وہ اکثر ابو بکر کو بھی اپنے ساتھ لیجاتی تھی. عی نے کبھی نسرین کو اس بات پر کچھ نہیں کہا اور یہی بات انکی سب سے بری غلطی ثابت  وئی.

مہینہ تو یونہی گزر گیا اور نسرین میں بھی کافی بہتری ہوگی پر اکا پیچ ابھی بھی ڈھیلا تھا اور نہ ہی کبھی ٹائٹ ہونے والا تھا. اب وہ فضول باتیں بھی نہیں کرتی تھی اور سوال جواب بھی کم کر دے تھے اور اس تارہا گھر میں کچھ سکوں تھا. یہ سکوں شاید صرف کچھ مہینے کا ہی مہمان تھا.


اور وہ دن بھی آگیا جب میں اس حال پر پہنچی. ابّو کی طبیعت خراب تھی اور وہ گھر پر  اور عی نے خود بھی چھتی کی اور ابو بکر کی بھی ہوئی. جب میں گھر یی تو امی ابو بیہوش تھے اور نسرین کے ساتھ ابو بکر بیٹھا ہوا تھا. اسکے ساتھ ہی ایک مزدور تھا جسکے ہاتھ میں پستول تھا جو اس نے ابو بکر کی کن پٹی پر  ہی تھی. مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھکے میں کیا کروں. وکنے مجھے کہا ک گھر میں تمام قیمتی اشیا میں انکے حوالے کر دوں جیسے زیوارت وغیرہ. امی کے  ایک ہی چین تھی اور دو کڑھے باقی اگر کچھ تھا تو وو امی نے بیچ دیا تھا  ابو کی نوکری چھٹی تھی تو اس وقت ہمیں ضرورت تھی . نسرین کو یہ بات پتا نہیں تھی. اس لئے وہ یہی کہے جا رہی تھی ک باجی کے سارے زیور دو. میں نے امی کا سیٹ اتر کر دے دیا اور جو پیسے تھے وو بھی دے دے پر وہ یہ ماننے کو تیار نہیں تھی. میری سن ہی نہیں رہیں تھے اور اسے چکّر میں  انہوں نے ابو بکر پی گولی چلا دی. میرے سامنے میرے بھی کو مر دیا، اکا خون میرے دامن پر. میں   تھی. میرے ماں باپ بیہوش تھے، اور مزدور کا اگلا نشانہ میری ماں تھی. میں نے اسکی بہت منتے کی پر وہ میری ایک نہ سنی. میں نے اسکو کہا کہ وو یہ گھر لیلے مگر مجھے اور میرے ماں باپ کو زندہ بخش دے مگر اکا کان پر جوں تک نہ رینگی اور اسنے گولی چلا دی. میری  ک سامنے اسنے اس ہستی کو بھی ختم کر ڈالا جس ہستی ک بگھاری کوئی جینے کا تصور بھی نہیں کرتا. میں بلکل سکتے میں چلی گئی تھی. میرے سامنے وہ میرے خاندان کو ختم کر رہا تھا. ابو کو اسنے چھوڑ دیا کیونک میں نے اسکے پاؤں پکڑ لئے تھے

میں ابو کو سمبھالتے  گھر سے بھر لا رہی تھی کے اچانک ایک فائر کی آواز، اور وی ابو کی تانگ مے گولی لگی. ابو کی یک دم چیخ نکلی اور میں کچھ نہیں کر سکی. میں کسی کو مدد کے لئے بھی نہیں بلا سکتی تھی ق ک اگر میں ایسا کرتی تو وو مجھپے بھی گولی چلا دیتا. میرے ابو نے بھی میری گواد میں ڈیم توڑا اور ہمیشہ کہ لئے میرا ساتھ چھوڑ دیا. 

اور اب میں اس تانگ گلی کے نکّر پے کھڑی ہوں بلکل لاچار، کسی معجزے کے انتظار میں ...

~ عایشہ ہمزہ

13 comments:

  1. بہت عمدہ! ما سوا چند ایک اغلاط کے، جو کہ محض بلاگ کی وجہ سے معلوم ہوتی ہیں، آرٹیکل نہایت شاندار لکھا گیا ہے۔ بس ایک بات تھی۔۔۔ اگر عنوان کے ساتھ ساتھ ایک ذیلی عنوان بھی آجاتا اور آرٹیکل کی درجہ بندی ہو جاتی کہ آیا یہ کہانی ہے، افسانہ ہے یا پھر سچے واقعات سے متاثرہ ہے، تو زیادہ اچھا تھا۔ کہانی کہ آخر میں عنوان کی جو کڑی ملتی ہے وہ بہت دلچسپ ہے۔ اپنی کام کو جاری رکھیے گا۔

    ReplyDelete
  2. thankue soo much for your kind words sir :)

    ReplyDelete
  3. Very well written and i totally agree with Khalid's point you should have given some clue or title as to what it is actually :)
    Just asking out of curiosity is it based on a true story ? if yes what happened to the girl afterwards ?

    ReplyDelete
  4. Thankue Alayna ;) and yes well it is basically a afsana and no it is not based on a true story and the girl well she's still waiting for a miracle :P

    ReplyDelete
  5. Nyc .. excellent keep it up wish u all the best in future.

    ReplyDelete
  6. pure skill!!loved it.keep it up!

    ReplyDelete
  7. pure skill!!loved it.keep it up!
    i too hav an article in ths issue..rol of decision making..hv look1 :)

    ReplyDelete
    Replies
    1. Thankue :)
      i did read that it is indeed hard to make a decision :)

      Delete
  8. Very heart rendering story, story of any household in Karachi.

    ReplyDelete
  9. سب بہت اچھا ہے ... تحریر بھی بہت اچھی ہے ... بس املا کی درستگی کو ملحوظ خیال رکھا جائے :)

    ReplyDelete

It's all about friendly conversation here at Small Review. We would love to hear your thoughts.
Be sure to check back again, because we do make every effort to reply to your feedback here.