میں اور پاکستان

"مگر میں تم سے بہت محبّت کرتی ہوں."
"تم جھوٹ بول رہی ہو، تم سب جھوٹ بولتے ہو اور تم لوگ یہ نہیں جانتے کہ یہ جھوٹ مجھے کتنی تکلیف دیتے ہیں، تم سب کہتے ہو کہ مجھے تم سے محبّت ہے مگر محبّت کرنے والے ایسے نہیں ہوتے."
"پھر کیسے ہوتے ہیں؟"
"وہ اپنے محبوب کا بہت خیال رکھتے ہیں، ایسا کوئی کام نہیں کرتے جس سے اسے تکلیف ہو مگر تم لوگو نے ...؟ تم لوگو نے مجھے کہیں کا نہیں چوڑا ... میں کیا تھا اور کیا بن گیا ہوں ... یہ بات مجھے مار ڈالنے کہ لئے کافی ہے."
"مگر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ ہمارے حکمران بہت ہی نااہل ہیں. ہمارے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں ہے."
"ایک اور جھوٹ! سب کچھ تم لوگو کہ ہاتھ میں ہی تو ہے بلکہ ہمیشہ سے ہی تو تھا ... کوئی اور بہانہ تراشو!"
"مگر یہ بہانہ نہیں ہے. ہم بے بس ہیں. تمہیں پتہ ہے اگر میں تمہاری وزیراعظم ہوتی تو اس وقت تمہارا یہ حال نہ ہوتا. میں تو تمہاری تقدیر بدل کر رکھ دیتی."
"اگر تم سب لوگو کو بھی وزیراعظم بنا دیا جاۓ تب بھی میرا حال یہی رہے گا کیونکہ میری تقدیر بدلنے کے لئے تم لوگو کو وزیراعظم نہیں بلکہ ایک سچا پاکستانی بننے کی ضرورت ہے."
"ہاں تو ہم پاکستانی ہی تو ہیں اور ہمیں اس پر بےتحاشا فخر بھی ہے."
"غلط! تمہیں تو پاکستان کا مطلب بھی نہیں پتا. پاکستان کا مطلب ہے 'پاک لوگو کے رہنے کی جگہ' اور تم لوگو کا حال یہ ہے کے ناپاکی، اٹھتے، بیٹھتے، کھاتے، پیتے، یہاں تک کہ سوتے بھی گندگی میں ہو!"
"یہ تم کیا کہ رہے ہو؟ ہمیں ناپاک تو مت کہو!"
"تو اور کیا کہوں؟ ناپاکی کا تعلق جسم سے زیادہ روح سے ہوتا ہے اور تم لوگو کی روحیں ہر اس غلاظت میں گہری ہی ہیں، جو انکو گھایل کر دیتی ہے. جھوٹ، ناانصافی، دھوکہ دہی جیسی بظاھر معمولی چیزوں سے لے کر قتل تک کے گناہ کبیرہ میں ملوث ہو تم لوگ! کیا یہ غلاظت کافی نہیں؟"
"بس کرو! میں نے کس کا قتل کیا؟ استغفراللہ!"
"قتل کرنا صرف کسی کی سانسیں چھین لینے کا نام نہیں ہے، بلکہ کسی کی زندگی سے اسکی ساری خوشیاں نکال لینا بھی قتل ہی ہوتا ہے اور اس میں تم لوگ ماہر ہوتے جا رہے ہو. تم قتل کو چھوڑو، جھوٹ کو للو، تم جانتی ہو یہ جھوٹ! یہ زرہ سا فتنہ قوم کو ہلاک کرنے کی طاقت رکھتا ہے!"
"تو میں نے کب قوم کو ہلاک کرنے والا جھوٹ بولا؟ تم اب مبالغہ آرائی کر رہے ہو!"
"جھوٹ چاہے یہ ہی کیوں نہ ہو کے میں نے کھانا کھا لیا ہے جب کے نہیں کھایا ہوتا، جھوٹ جھوٹ ہے. اور کیا یہ بات ہی دل دہلا دینے والی نہیں کے تم لوگوں نے جھوٹ کو کو گناہ سے ہی نکال دیا ہے؟"
"یہ بات تو تمہاری سہی ہے، جھوٹ واقعی بہت عام ہو گیا ہے مگر اسکے بغیر گزارا بھی تو نہیں ہوتا اب."
"ہو بھی سکتا ہے، اگر تم لوگ کرنا چاہو تو."
"اچھا تم مجھے یہ بتاؤ کے ہماری کونسی باتیں تمھیں دکھ دیتی ہیں؟"
"ایک لمبی فہرست ہے."
"پھر بھی؟"
مجھے سب سے زدہ دکھ تب ہوتا ہے جب کوئی 'دو قومی نظریہ' پر بحث کرتا ہے کہ یہ سہی تھا یا غلط تھا اور تب جب میرے نوجوان، میرے مستقبل کے معمار بھارتی گانوں پر رقص کرتے ہیں تو میں چیختا ہوں کہ ہم جڑنے کے لئے تو علیحدہ نہیں ہوئے تھے! اور تب جب میری مقدّس سرزمین پر کھڑے ہو کر ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے لڑتا ہے اور تب جب میری یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ضمیرن پر ہر وو کام کیا جاتا ہے جو غیر اسلامی ہے. اور تب جب ایک پاکستانی دوسرے پاکستانی سے جھوٹ بولتا ہے اور اسے دھوکہ دیتا ہے ! یقین جانو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے. اور پتا ہے مجھے کب بہت زیادہ دکھ دوتا ہے؟ جب ظالم بھرتی میری  شہ رگ ، میرے کشمیر پر ظلم کے پہاڑ توڑتا ہے اور میرا باقی جسم خاموش رہتا ہے."
"تم تو میری توّقوات سے ضدّ دکھی ہو، مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہم تمھیں اتنا دکھ دے رہے ہیں مگر تم ابھی تک زندہ کیسے ہو؟ اتنے دکھوں کے باوجود؟
"دکھوں کے ساتھ خوشیاں بھی تو ہوتی ہیں اور یہی خوشیاں مجھے زندہ رکھیں ہوئی ہیں!"
"اچھا تم خوش بھی ہوتے ہو؟ تمہیں کونسی چیزے خوش کرتی ہیں؟"
"یہ بھی ایک لمبی فہرست ہے!"
"میں اس وقت بہت خوش ہتا ہوں جب ایک ننھی سے بچی اپنے ہاتھ میں پکڑا کو ڑا کرکٹ یہ سوچ کہ کوڑا دن میں ڈالتی ہیں کے میرا ملک سعد رہے، اور جب یوم آزادی کی تیاریوں میں گلی میں گر جانے والی جھنڈی کو کوئی میرے احترام میں اٹھا کر سینے سے لگا لیتا ہے. اور جب چار دوستوں کی محفل میں ایک دوست باقی تینو دوستوں کو سمجھا رہا ہوتا ہے کہ ہم سندھی، بلوچی، پنجابی یا پھٹان نہیں ہیں بلکہ ہم پاکستانی ہیں. اور تب جب ٹی وی پر لگنے والے قومی ترانوں کو سن کر کوئی کھڑا ہوجاتا ہے تو میری خوشی کی کوئی انتھ نہیں رہتی! اور جب میری مائیں بہنیں میری سلامتی کے لئے دعا کرتی ہیں اور جب میری سرزمین کے بیٹے شہادت کی تمنا لئے میری حفاظت کو سرحدوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں تب میرے فخر کی انتہا مت پچو! اور جب میں ان مخلص پاکستانیو کو دیکھتا ہوں جو سیلاب اور زلزلے جیسے نہ گہانی آفتوں میں بیشمار امدادی سامان اپنے بھائیوں کے لئے جما کرتے ہیں تو مجھے امید کی کرن نظر اتی ہے کے 'ذرا نم ہو تو یہ مٹی بری زرخیز ہے ساقی'."
"تو کیا تم گویا اس امید کی ذرا سی کرن کے سہارے زندہ ہو؟"
"ہاں! کیونکہ ناامیدی کفر ہے! پاکستان کا مطلب کیا؟ 'لا الہٰ الا اللہ !" اس حساب سے دیکھا جاۓ تو میں اپنی ولادت کے وقت سے مسلمان ہوں اور ناامیدی ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتی. میں یا تم یہ کیسے کہ سکتے ہیں کے میں نہیں بچوں گا؟ کیا ہم غائب کا علم رکھتے ہیں؟ ہرگز نہیں! بات صرف اتنی سی ہے کےتمہیں اپنی قدرو قیمت کا اندازہ نہیں، تم لوگو کی شان کیا ہے تو میں بچ جون گا. تم لوگوں کے معاملے میں لاعلمی نعمت نہیں زہر ہے جو سب کو ختم کر رہا ہے. خدارا! اپنی قیمت پہچانو!"
"میں تمھیں کیا کہوں؟ می بہت شرمندہ ہوں."
"تمھیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، تم لوگوں کو اب صرف کام کرنے کی ضرورت ہے."
"میں کوشش کروں گی. کیا تم مجھے ایک مکمّل نصیحت کر سکتے ہو؟"
"ہاں! میں ایک بات کہنا چاہتا تھا کہ تم اسکو آگے پہنچا دینا. خود میں اور دوسروں میں فرق کرنا قرآن کو بنا لو، دوسروں کو دکھاؤ کے یہ تمہارا قرآن ہے اور تمہارے اعمال ہی تمھیں دوسروں سے منفرد کر بناتے ہیں اور یاد رکھنا میں نے 'دکھاؤ' کہا ہے 'بتاؤ' نہیں. تمہارا پاکستان تم سے صرف یہی چاہتا ہے."

 ~ تنزیلہ انیس
Bookmark and Share

No comments:

Post a Comment

It's all about friendly conversation here at Small Review. We would love to hear your thoughts.
Be sure to check back again, because we do make every effort to reply to your feedback here.